دوسروں کو سپیس دینے کا مطلب کیا ہے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آپ اِس وقت کہاں اور کس پوزیشن میں، کس رُخ پر بیٹھے ہیں؟ گردن گھما کر اپنے دائیں، بائیں اور پھر سامنے کن اشیاء کو مکمل طور دیکھ سکتے ہیں؟ کن اشیاء کا صرف 50 فیصد یا 10 فیصد آپ کے احاطہِ نگاہ میں آ رہا؟ کوئی شے اگر پوری نہیں دیکھ سکتے، مگر دیکھنا چاہتے ہیں، تو آپ کیا کریں گے؟
ظاہر ہے، آپ کرسی پر بیٹھے بیٹھے کسی ایک طرف جھک جائیں گے، گردن لمبی کریں گے، یا اُٹھ کر اُس خاص چیز تک بدنی اعتبار سے ایپروچ کریں گے، یا کسی دوسرے شخص کو آواز دے کر مدد طلب کریں گے ۔۔۔ وغیرہ۔
اگر آپ کسی چیز کا سو فیصد نہیں دیکھ پا رہے بلکہ 50 یا 30 فیصد دیکھ سکتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے آپ ایک خاص زاویے پر بیٹھے ہیں۔ اِسے ہم اَینگولر پوزیشن angular position کہتے ہیں۔ جب کوئی چیز، منظر، معاملہ صرف اَینگولر پوزیشن سے دیکھا جا سکتا ہو، نہ کہ مکمّل طور، تو جس زاویے سے آپ وہ چیز دیکھتے ہیں اُسے آپ کا پرسپیکٹِو perspective کہا جائے گا۔ انگریزی زبان میں اِس لفظ کے لیے درج ذیل مترادف الفاظ مستعمل ہیں:
point of view, viewpoint, outlook, position, standpoint, view, opinion, stand, stance, angle, slant, approach, frame of mind, frame of reference
یہ سب الفاظ اَینگولر پوزیشن کا اظہار یا اس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اور دیکھا جائے تواَینگولر پوزیشن کا ایک مزے دار سا مطلب ہے معذوری۔
ہم میں سے ہر شخص اِس دنیا میں بہت حد تک معذور ہے، اور اس معذوری کی ہزاروں اقسام ہیں۔ مثلاً دیکھنے، سننے، سوچنے، کھانے پینے کی معذوری۔ ہم یہ معذوری ہر روز، ہر آن، کسی دوسرے شخص یا شے کی مدد سے پوری کیا کرتے ہیں۔ مثلاً ایک چھوٹا بچہ خود اپنا فِیڈر نہیں بنا سکتا۔ مثلاً ہم اخبار پڑھے بِنا یا ٹیلی ویژن اسکرین پر نیوز بلیٹن سنے بنا حالاتِ حاضرہ سے متعلق تازہ خبریں حاصل نہیں کر سکتے ۔۔۔ وغیرہ۔
اب جیسے ہم چھ فٹ فاصلے پر رکھی ایک چیز کی پُشت نہیں دیکھ سکتے، اِسی طرح بےشمار معاملات یا موضوعات ایسے ہیں جن سے متعلق ہم اپنے حواس، دل اور دماغ کی مدد سے بہت کم جان پاتے ہیں۔ چنانچہ کسی موضوع پر اپنی جان کاری بڑھانے اور مکمل کرنے کو ہم دوسروں کی رائے یا اُن کے پرسپیکٹو کا سہارا لیتے ہیں۔
یعنی سامنے پڑی ایک چیز کے دائیں طرف یا اُس کی پُشت پر بیٹھے شخص سے ہم دریافت کریں گے کہ یہ چیز تمہیں کیسی دِکھتی ہے؟ کیا پُشت کی جانب بھی اِس کی موٹائی، لمبائی، چوڑائی، اور رنگت ویسی ہی ہے جیسی ہم اپنی طرف والی سمت سے اِسے دیکھتے ہیں، یا کسی قدر مختلف ہے؟
جب ایسا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ ہم کسی بھی موضوع پر حتمیت اور قطعیت کے ساتھ بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ ہم معذور ہیں،ہم محتاج ہیں۔اور ہماری احتیاج ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم دوسروں کی مدد طلب کرنے کو اچھا سلیقہ اختیار کریں۔
بات کرنے، رائے کا اظہار کرنے میں تہذیب کا سفر یہیں سے آغاز ہوتا ہے۔ یعنی اپنی معذوری کو جان لینے، اپنے نامکمل پن کو پہچان لینے سے۔
کوئی بھی بڑا دانشور صرف اس لیے بڑا ہوتا ہے کہ وہ اپنی معذوری سے خوب واقف ہوتا ہے۔ گویا سخت لب و لہجہ اپنا کر اَنا، ضد، یا ہٹ دھرمی والا رویہ اختیار کرنا اپنے نامکمل پن کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو جانا ہے۔ اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت دوسرے شخص کو space دینے، اس کے لیے گنجائش رکھ چھوڑنے کا مطلب ہے اپنی معذوری کا اعتراف کرنا۔
یہ گنجائش یا سپیس کیسے دی جاتی ہے؟
ذیل میں درج الفاظ کو ادا کرنے کی باقاعدہ مشق کرنی چاہئیے تا کہ ایسے polite phrases ہماری گفتگو کا مستقل حصہ بن جائیں، اور ہماری تہذیب کا ثبوت ٹھہریں۔
ـــ میرا تاثر / احساس یہ ہے کہ ۔۔۔
ـــ مجھے آپ سے جزوی اتفاق ہے ۔۔۔
ـــ میری رائے میں اس معاملے کو اِس طور دیکھنا زیادہ اہم ہے کہ ۔۔۔
ـــ کیا ہم یہ سارا منظر اس طور بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ۔۔۔
ـــ اگر آپ تھوڑی سپیس دیں تو میں یہ کہنا چاہوں گا/گی کہ ۔۔۔
ـــ میں ذرا مختلف بات کروں گا، شاید آپ کو اس زاویے سے دیکھنا بھی اچھا لگے ۔۔۔
ـــ اس موضوع پر میرا احساس قدرے مختلف ہے ۔۔۔
ـــ آپ نے خوب بات کی۔اب اگر آپ اجازت دیں تو کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔۔۔
ـــ جو کچھ آپ نے کہا، اس کا اسکوپ پوری طرح موجود ہے، تاہم اس کے بالکل برعکس بھی ایک رائے ہو سکتی ہے، مثلاً ۔۔۔
ـــ بہ صد ادب مجھے آپ کی بات سے اختلاف ہے ۔۔۔
ـــ آپ کی بات درست ہو گی لیکن کیا اس سے مختلف بھی سوچا جا سکتا ہے؟ جیسے ۔۔۔
ـــ آپ کی بیشتر باتوں سے اتفاق ہے، البتہ چند پہلو ایسے ہیں جن پر میں اپنی رائے دینا چاہوں گا/گی ۔۔۔
یہ محض الفاظ نہیں ہیں۔ یہ اپنے اندر ایک پوری تہذیب ہے۔ ایسے الفاظ ادا کرنے کا مطلب ہے :
آپ میں دوسروں کو برداشت کرنے کی سکت ہے۔
آپ لفظ تحمّل کے رول ماڈل ہیں۔
آپ کے نزدیک اپنی بات منوانے سے زیادہ اہم سامنے موجود انسان کے ساتھ تعلق برقرار رکھنا ہے۔
آپ اس دنیا میں جگہ بہ جگہ اپنی انا کے پرچم گاڑنے نہیں آئے۔
آپ نفرت کے نہیں، محبت کے سفیر ہیں۔
آپ 'جیو، اور جینے دو' پر ایمان رکھتے ہیں۔
محض گفتگو کے آداب رہے ایک طرف۔ اگر ٹھوس نوعیت کے معاملات درپیش ہوں تب؟
کیا آپ جانتے ہیں رسالتمآبؐ نے معاملات میں ایسی وسعت کا مظاہرہ کرنے والے کے لیے کیا incentive اناؤنس کر رکھا ہے؟ آپ علیہ الصلٰوۃ والتسلیم نے فرمایا:
'میں ایسے شخص کے لیے جنّت میں ایک محل دئیے جانے کا وعدہ کرتا ہوں جو جھگڑا ختم کرنے کو اپنے جائز حق سے دستبردار ہو جائے۔'
یہ زندگی ختم ہو جائے گی، رویّے باقی رہ جائیں گے۔ رویّوں کی حفاظت کریں۔ایسا شخص اِس دنیا میں تو محبتیں کمائے گا ہی، وہ وقت زیادہ دور نہیں جب یہ ایبسٹریکٹ چیز ہمیں ٹھوس انعام کی صورت بھی لوٹا دی جائے گی ــــــــــ کروڑہا برسوں پر محیط ایک غیر مختتم galaxial life میں۔
شہزاد شفیق حجامہ
0321 2773576 0312 2001310 03317863313