Wednesday, 1 February 2023

انسانی جسم اور گلینڈز طبی موازانہ

 انسانی جسم میں سینکڑوں گلینڈز اور اس کے افرازات کا طبی اور ایلوپتھک موازنہ



طب اور ایلوپیتھک کی راہیں اس وقت مکمل جدا ہوئیں جب ایلوپیتھک نے طبعیات کی بجائے کیمسٹری سے طب جوڑنے کی راہ اپنالی۔۔۔

آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ طب میں تشخیص و معالجہ کی بنیاد اب بھی طبعیات پر قائم ہے جب کہ ایلوپیتھی جسم کی امراض کی تشخیص اور پھر علاج دونوں میں کیمسٹری پر چل رہا ہے۔۔


  انسانی جسم ایک نہیں سینکڑوں پیچیدہ نظامات اور خودکار طبعی امور سرانجام دینے والے مشین ہے۔۔۔

طب اب بھی انسانی جسم کے ارادی اور غیر ارادی افعال کو سمجھنے اور اسے اعتدال میں رکھنے کے لیے طبعیات کے اصولوں پر عمل پیرا ہے۔


اب ان دونوں طریقہ علاج کی دنیا میں رواج اور طریقہ کار کا جائزہ لینے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسان کی صحت کے حوالے سے زیادہ محفوظ اور دیرپا کونسا طریقہ سودمند یے

حالیہ چند عشروں میں مختلف پیچیدہ امراض کے سلسلے میں کیمیائی بنیادوں پر علاج تقریبا غیر محفوظ بلکہ خطرناک حد تک مضر تصور کیا گیا ہے۔

جدید اور ترقی یافتہ دنیا ایک بار پھر نیچرو،ہربل،ڈائٹیشن اور الٹرنیٹیوز کے مختلف ناموں پر علاج کی طبعیاتی۔۔۔یعنی طبعی اور فطری علاج معالجے کی طرف آرہی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسم کو اگر کیمکلی طور ڈیل کرنے کا جاری رکھا جائے تو 

تشخیصی طور پر نہ جانے مزید کتنے ہارمونز پیدا یا جانچنا پڑھیں گے۔۔۔اور پتہ نہیں کتنے تھرموسٹیٹ نکالنے پڑھیں گے۔۔اور پھر ان خود کار طبعی افعال کے لیے نہ جانے کتنے کنٹرول ہارمونز کی نشاندہی کرنی ہوگی۔۔۔

پیشاب کے لیے الگ۔۔براز کے لیے الگ۔۔نیند کے لیے الگ۔۔۔جذبات کے لیے الگ۔۔۔توازن کے لیے الگ۔۔۔موسم کی شدت محسوس کرنے کے لیے الگ۔۔شوگر ۔۔بلڈ پریشر۔۔۔بھوک۔۔۔پیاس۔۔۔غصہ۔۔ماہواری۔۔۔وغیرہ وغیرہ سینکڑوں خود کار نظامات کے لیے بلکہ جتنی بھی غدد ہیں۔۔۔سب ہارمونز پروڈیوس کرتے ہیں.  اور ان سب کے ہامونز کا کیمکلی مطالعہ اور فعلی اثرات جانچنے کا لامتناہی سلسلہ چلتا رہے گا۔۔

یہ تشخیص تو اپنی جگہ جاری رہے گی لیکن اب اس بنیاد پر علاج کا بھی تھوڑا سا جائزہ لیں۔

کہا گیا کہ 

فیمیل انفرٹلٹی اور ام میچور اووریز یا مینسز ایر ریگولیرٹی۔۔ایمونوریا یا ڈسمینوریا ۔۔۔ہارمنز FSH,LH,وغیرہ کے دماغ کے اندر غدد کی ڈسٹرببنس  کا نتیجہ ہے۔۔

چلو مان لیا۔۔۔اس سے کون انکار کرسکتا ہے؟؟ کہ یہ جدید کیمکل اور پیتھالوجکل ریسرچ ہے اور اس میں ہمارے پاس وہ آنکھیں نہیں جس سے ہم یہ دعوی پرکھ سکے۔۔

چل نکلیں ہارمونک علاج کی طرف۔۔۔آپ سب کا تعلق اس فیلڈ سے ہے ۔۔آپ بتا دیں کہ فیمیل کی انفرٹیلٹی اور بانجھ پن کے مختلف مسائل میں باوجود ایک سپیشل ڈسپلن اور مخصوص فیلڈ کی سپیشلٹی کے ۔۔ایلوپیتھک علاج ان ہارمونز کو درست کرنے میں کتنا کامیاب رہا ؟؟؟نہ ہونے کے برابر۔۔۔بلکہ تمام گائناکالوجیسٹ یارمونک میڈیسن سے پہلے انٹی باڈیز لکھنے پر مجبور ہیں۔۔۔پھر بھی نتیجہ صفر سے تھوڑا بہتر۔۔۔

دراصل ہامونک سسٹم کے طریقہ علاج کے متعارف ہونے کے چند سال بعد اس کی مابعد خطرناک ترین نقصانات سامنے آکر اسے تبدیل کرنا یا مکمل چوڑنا بھی پڑرہا ہے۔۔

اس سلسلے میں ہائپر اور ہائپو تھائرائیڈ کے لیے تھائی راکیسن اور اٹامک انرجی میڈیسن اور ریڈی ایٹری علاج کے نقصانات ہمارے سامنے ہیں۔۔

صرف ہائپر تھائی رائڈزم کی مریض اٹامک کیمکل کے دو قطرے دل اور جوڑوں کے امراض ۔۔۔آسٹرو آرتھرائٹس جیسے موذی امراض کے شکار ہوگئے۔۔جس سے پہلے والا مرض زیادہ بہتر تصور کیا جاریا ہے۔۔ہائپر تھایرایڈ سے شاید اتنی جلدی نہ مرتے۔۔۔اس لیے فزیشن خضرات اب زیادہ سے زیادہ نیومرکزول پر ہی مرض کو قابو رکھتے ہیں۔


میرے طبیب بھائیو!

اوہر جو تین چار ہامونک امراض کا میں نےذکر کیا۔۔۔آپ ان میں طبی علاج کی افادیت سے واقف ہیں۔۔۔جس کے جسم پر کسی قسم کے مابعد اثرات نہیں ہوتے۔۔

طب ان ہارمونک امراض کو غدد ناقلہ کے امراض سمجھتا ہے۔۔۔اور غدد کے افعال کی تیزی۔۔۔ہائیر یعنی افرازات کی زیادتی  اور سستی ۔۔ہائپو یعنی افرازات کی کمی۔۔۔کا علاج بہت بہترین۔۔۔کم خرچ۔۔آسان اور فطری اور طبعی طور پر کیا جا رہا ہے۔۔۔


طبیب کو  اپنے فن میں مہارت تامہ کے حصول کے لئے مکمل تعلیم و تربیت  اس نہج پر کرنا ہوگا جس سے واقعتا لگے کہ طبیب واقعی حق وراثت ادا کر رہا ہے طب کے میدان میں کی جانی والی تمام تحقیقات اور علوم کو حاصل کر کے خلق خدا کی خدمت میں بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے 

 شہزاد شفیق حجامہ سینئر

0321 2773576 0312 2001310 03317863313 

No comments:

Post a Comment