Thursday, 20 April 2023

شہد کی مکھی

 میرے استاد نے مجھے ایران سے آئی ایک سٹوڈنٹ سے بات کرنے کے لیے کہا جو علی الاعلان اسلام چھوڑ چکی تھی۔

میں نے اسے ڈاکٹر صاحب کا حوالہ دے کر ملنے کا وقت مانگا۔

ملاقات ہوئی اور جیسے ہی اسے پتہ چلا کہ بات اسلام سے متعلق ہے تو وہ کہنے لگی میں اٹھائیس سال ایران میں اسلام دیکھ کر ہی یہاں آئی ہوں اگر اسی اسلام کی بات کرنے آئے ہو تو اپنے اسلام سمیت یہاں سے چلے جاؤ۔

میں نے کہا نہیں میں تو اس اسلام کی بات کرنے آیا ہوں جو قرآن بتاتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب میں جو کچھ موجود ہے میں اسے اسلام کا چربہ سمجھتا ہوں۔

وہ یہ سن کر کچھ نرم پڑی لیکن کہنے لگی میں نے تسلیم کر لیا ہے کہ میں کائنات میں اور کائنات خود ایک حادثے کے باعث موجود ہیں۔

میں نے کہا چلیے ہم یہ مان لیں گے لیکن کیوں نہ کائنات اور ہمارے نفس میں موجود ان نشانیوں کی بات کرلیں جن پر قرآن غور کرنے کو کہتا ہے۔ پھر اللہ نہ ملا تو تم اکیلی کیوں اسلام سے نکلو اکٹھے ہی چلیں گے۔ وہ مان گئی۔

میں نے اسے کہا تم نے کبھی سوچا قرآن میں اللہ یہ کیوں کہتا ہے کہ تم میری ایک بھی نعمت کا شمار نہیں کر سکتے۔

وہ بولی ایک نعمت کا شمار کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔ ایک تو ایک ہی ہے ایک کا شمار کون کرتا ہے۔ میں نہیں جانتی تھی قرآن میں اتنی مزاحیہ باتیں بھی ہیں۔

میں بولا چلو ایک نعمت کا شمار کرتے ہیں۔

ہم تین دن سے ایک آدھ گھنٹے کے لیے ایک نعمت کا شمار کر رہے ہیں۔

۔۔۔

میں نے اُس مُلحد ایرانی لڑکی سے کہا، چلیے میں تھوڑی دیر کے لیے تُمہاری بات مان لیتا ہُوں کہ کائنات کے اس خاص حصے یعنی زمین پر تُمہاری موجودگی ایک حادثہ ہے۔ حادثے کی دین ہی سہی, تُم اس زندگی کو ایک نعمت تو مانتی ہو نا۔

وہ کُچھ کنفیوز ہو گئی اور بولی نعمت کہوں گی تو تُم کہو گے یہ نعمت دینے والا بھی کوئی ہوگا، کیا تُم یہی گھسی پٹی دلیل لے کر آئے ہو۔

میں نے کہا تُم کنکلیوژن پر چھلانگ کیوں لگاتی ہو, تُم بھول گئیں کہ ہم تُمہاری بات مان کر آگے بڑھ رہے ہیں کہ کائنات اور زندگی ایک حادثہ ہے. میرا سوال تو بہت سادہ ہے کیا تُم اس بات پر خوش ہو کہ اس حادثے کے باعث تمہیں زندگی ملی۔

وہ بولی ہاں یہ اتفاق حسین ہے۔ میں نے پھر پُوچھا گویا زندگی کو تُم بہرحال نعمت سمجھتی ہو۔ وہ کہنے لگی ہاں زندگی ایک نعمت تو ضرور ہے۔

میں اُس کے اس اقرار سے خُوش ہُوا اور کہا چلیے اب اِس نعمت کو شُمار کرتے ہیں۔

وہ مسکرا کر کہنے لگی یعنی اب تُم قرآن کی اُس بات کی طرف آرہے ہو کہ تُم اللہ کی ایک نعمت کو بھی نہیں گِن سکتے۔

میں نے کہا کیا تُمہیں خوشی نہیں ہوگی اگر تُم اسے گِن کر قُرآن کا دعوٰی جھوٹا ثابِت کردو اور تُمہیں میری شکل میں ایک ایسا دوست مل جائے جو اسلام چھوڑ کر تُمہارا ہم نوا ہوجائے۔

اُس نے مسکراتے ہُوئے کہا چلو پھر گنتے ہیں اس نعمت کو۔

میں بولا زندگی ایک ایسی حقیقت ہے جسے دُنیا میں برقرار رہنے کے لیے کئی لوازمات کی ضرورت ہے, جیسے آکسیجن، پودے اور پانی۔ کیا ہمیں زندگی کے ان لوازمات کو زندگی میں ہی شمار نہیں کرنا ہو گا؟

وہ بولی ہاں ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ان تین کے علاوہ دس ایسی چیزیں اور ہیں جو زندگی کے لیے ضروری ہیں یہ ہوگئے دس لوازمات اور یہ لو، گِن لی ایک نعمت۔ اب قرآن کے دعوے کا کیا کریں جو کہتا ہے تُم ایک نعمت نہیں گِن سکتے؟

میں نے کہا تُم پھر کنکلیوژن پر جمپ کر رہی ہو. ابھی تو مجھے پانی کے بارے میں بات کرنی ہے اُس کے بعد سینکڑوں دوسرے لوازمات کے بارے میں جو میرے علم میں ہیں۔

وہ ہنس کر بولی یعنی ہماری بات اگلے کئی دن چلے گی۔

میں نے کہا کئی سال بھی مکالمہ جاری رہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم اپنے یہاں موجود ہونے کی وجہ ہی تو ڈھونڈ رہے ہیں۔

وہ بولی چلو پھر پانی کی بات کرو۔

میں نے کہا ٹھیک ہے اب بیس منٹ میں بولتا جاؤں گا تُم سُنتی جانا جو سوال ہو اپنے نوٹس میں لکھتی رہو آخر میں پُوچھنا۔

اُس نے سر ہلاتے ہُوئے اپنی نوٹ بُک کھول لی اور ایک پیج پر بڑی سی ہیڈنگ "مذھبی فضولیات" لکھ کر اُس ہیڈنگ کے نیچے لائن لگا دی۔

پھر مجھے اپنے لکھے کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا تو جھینپ کر بولی میں شرمندہ ہُوں لیکن مجھے فخر ہے میں بددیانت نہیں جو دل میں ہو گا وہی کہوں گی۔

میں نے کہا شرمندگی کی کوئی ضرورت نہیں دیانت ہی چاہیے۔ مجھے یقین ہے میری بات بھی تُم اسی دیانت داری سے اپنے دل میں پراسس کرو گی۔

وہ بولی یقیناَ ایسا ہی ہوگا۔ اب تُم بیس منٹ بول سکتے ہو میں دخل انداز نہیں ہوں گی۔ میں نے بولنا شروع کیا۔۔

دیکھیے! زندگی جو ایک نعمت ہے, کے ہزاروں لاکھوں یا شاید کروڑوں لوازمات میں سے ایک اہم چیز پانی ہے۔

اب یہ تو سائنس بتا چُکی کہ زمین جب بنی اس میں باہر سے جتنا پانی آیا تھا اُس کے بعد نہیں آیا۔

قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ پانی باہر سے ہی زمین پر آیا تھا۔

لیکن اس نکتے پر پھر بات کریں گے اسے اپنے نوٹس میں لکھ لو اور غور کرو جب حادثے سے دُنیا بن گئی اور مزید پانی بھی نہیں آیا تو پھر زمین پر پانی ختم کیوں نہیں ہُوا؟

اس کی وجہ مبیّنہ حادثے سے ہی زمین کے گِرد بننے والی وہ اوزون کی تہہ ہے جو نہ صرف سورج سے نکلنے والی مہلک ریڈی ایشن کو زمین پر پہنچ کر زندگی ختم کرنے سے روک لیتی ہے بلکہ اُس پانی کو بھی ایک حد سے اُوپر نہیں نکلنے دیتی جو سمندروں سے بھاپ بن کر بظاہر ضائع ہو جاتا ہے۔

اگر یہ اوزون کی تہہ نہ ہوتی تو زمین کا پانی ختم ہو جاتا۔

بات یہیں ختم نہیں ہُوئی۔ جب یہ پانی جو کہ کھارا اور پینے یا خُشکی کے پودوں کے قابل نہ تھا, اوپر جاتا ہے تو وہاں بجلیاں کڑکنے سے اس میں نائٹروجن بھی شامل ہو جاتی ہے جو پودوں کے لیے ضروری ہے اور بارش کے ذریعے نیچے آتے ہُوئے اس کا کھارا پن بھی جاتا رہتا ہے۔ کیسا خُوبصورت حادثہ تھا کہ اس نے ان باریکیوں کا بھی خیال رکھا۔

ابھی بات ختم نہیں ہُوئی۔

چونکہ پانی خُشکی کا دوتہائی سے بھی زیادہ ہے اس لیے سمندروں سے بھاپ بن کر اُڑنے والا پانی اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اگر یہ سارا نیچے آ جائے تو زمین ڈوب جائے۔

حادثے نے اس بات کا بھی خیال رکھا کہ چند فیصد بھاپ بارش کی شکل میں بنجر زمین سیراب کیا کرے اور باقی بھاپ اوپر صاف ہو کر برف کی شکل میں نیچے آئے۔ اُس میں سے بھی کُچھ پگھل جایا کرے باقی گلیشیئرز کی صورت محفوظ ہو جائے اور اُن دنوں میں بھی آہستہ آہستہ پگھل کر زندگی کو فلٹرڈ پانی دیتی رہے جب بارشیں نہ ہوں۔

ذہن میں یہ سوال اٹھے گا کہ سمندر کا پانی کھارا ہی کیوں ہے؟ یہی صاف ہوتا تو زندگی کی حفاظت کے لیے باقی حادثوں کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔

دیکھیے! اگر سمندر کا پانی کھارا نہ ہوتا تو وہ آبی مخلوقات ہی نہ ہوتیں جو صرف کھارے پانی میں زندہ رہ سکتی ہیں اور اُن کی زندگی انسانوں سمیت زندگی کی دیگر شکلوں کے لیے بہت ضروری تھی۔

اب حادثے کا ایک اور کرشمہ دیکھیے کہ سمندر میں موجود زندگی کی حفاظت کے لیے حادثے پر حادثہ یہ ہُوا کہ پانی جو زمین پر حادثاتی طور پر آیا تھا کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ جمے تو نیچے کی بجائے اوپر آتا ہے۔

یعنی اوپر سے جو پانی برف کی شکل میں گلیشئیرز بن کر خُشکی پر رہا وہ تو زندگی بچا ہی رہا ہے جو باقی برف سمندر پر گری وہ ڈوبنے یا نیچے جانے کی بجائے پانی کی سطح پر رہتی ہے۔

وہ سطح سردیوں میں موٹی ہو جاتی ہے اور سردیوں میں سردی نیچے پانی میں نہیں جانے دیتی جہاں وہ کروڑوں مخلوقات زندہ ہی نہ رہیں اگر باہر کی شدید سردی سے پانی ایک خاص حد سے ٹھنڈا ہوجائے۔

کتنے کمال کے حادثے ہیں جو مسلسل ایک دوسرے سے مل کر کام کر رہے ہیں اور مزید کوئی ایسا نیا حادثہ بھی نہیں ہُوا جو تسلسل سے ہونے والے حادثوں کا تسلسُل اور وہ فریکوئنسی توڑ دے جو ہلکی سی بھی بدل جائے تو وہ زمین پر ہرقسمی زندگی کا آخری دن ہو۔

گویا حادثے میں ایسے کسی حادثے سے ہمیشہ کے لیے بچنے کا انتظام بھی حادثاتی طور پر موجود تھا تاکہ زمین پر حادثاتی طور پر پیدا ہونے والی زندگی کسی حادثے کے باعث ختم نہ ہو جائے۔

دیکھیے! یہ ساری کہانی آسمان کے ہماری زمین سے اُڑنے والے پانی کے واپس لوٹ آنے سے شروع ہُوئی تھی اور جس دین کی بات میں تُم سے کرنے آیا ہُوں اُس کا بھیجنے والا قُرآن میں کہہ رہا ہے کہ ہم نے جو آسمان بنایا اس کی یہ صفت رکھی کہ وہ واپِس کرنے والا ہے۔

وہ جو آنکھیں بڑی کیے سُن رہی تھی بولی واؤ یہ قرآن میں کہاں لکھا ہے؟؟


جب اُس ملحد لڑکی نے مجھے ٹوکا تو لگا جیسے میں اُس منظر سے باہر نکل آیا ہُوں جو اللہ کی ایک نعمت کا شُمار کرتے ہُوئے میرے لاشعور میں چل رہا تھا۔

یہی طے ہُوا تھا نا، تُم اپنے سوالات ’’ مذھبی فضُولیات‘‘ والی ہیڈنگ کے نیچے لکھتی رہو گی اور اپنی باری پر پُوچھو گی میں نےاُس سے پُوچھا تو وہ بولی سوری رہا نہیں گیا، یہ بہت سرپرائزنگ ہے کہ قُرآن نے تُہارے بقول آسمان کو لوٹانے والا کہا ہے اور ہماری ڈسکشن سے یہ تو واضع ہے کہ اوزون میں پانی لوٹانے والی صفت نہ ہوتی تو زمین پر زندگی پیدا ہی نہ ہو سکتی۔ تبھی مجھے تجسس ہوا کہ دیکھوں قُرآن میں آسمان کے لوٹانے کی خصوصیت کا کہاں ذکر ہے۔

میں نے اُسے سُورۃ الطارق کی گیارھویں آیت دکھائی، قُرآن کے تراجم عمُوماَ الرَّجْعِ کا سادہ سا مطلب کرتے ہیں۔ میں نے اُسے قرآن کی چھے الگ الگ تفاسیر اور لغت دکھائی تو وہ کہنے لگی ہاں ٹھیک ہے ابھی تک تُم اپنا کیس ٹھیک پیش کر رہے ہو۔ آگے دیکھتے ہیں۔

میں بولا لیکن تُم اب سوال لکھتی رہو گی اور اپنی باری آنے پر پُوچھو گی۔

اُس نے ہاں میں سر ہلایا تو میں اپنی بات جاری رکھتے ہُوئے بولا میں تُمہیں پانی اور خُشکی کا وہ تناسُب بھی قرآن میں دکھا سکتا ہُوں جو اس وقت زمین پر موجود ہے۔ چاہو تو اس نکتے کو اپنے نوٹس میں ایڈ کر لو ہم پانی پر مزید بات کر سکتے ہیں لیکن اب تُم نے ردّم توڑ ہی دیا ہے تو کیوں نہ ہم اُس حادثے کی طرف چلیں جس نے یہ دُنیا تشکیل دی تھی۔

وہ بولی ویسے تو میں اپنے بارے میں جاننا چاہتی ہُوں کہ میں یہاں کیوں ہُوں لیکن تُم پیچھے جانا چاہتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن پہلے مجھے اس آیت کے لفظ کی تشریح کی تصویریں لینے دو۔

وہ تصویریں لینے لگی تو میں نے پُوچھا یہ بتاؤ تُمہارا فون کیا جدید ترین ہے۔

وہ بولی چند مہینے پُرانا ہے لیکن جدید ترین کے قریب ہے۔

اس کا کیمرا کتنے میگا پکسلز کا ہے میں نے پُوچھا۔ وہ بولی شاید بارہ میگا پکسلز کا ہے۔

میں بولا کیا تُم جانتی ہو جو حادثہ تُمہاری اور تُم جیسے اربوں انسانوں کی تخلیق کا باعث بنا وہ اتنا شاندار تھا کہ اُس نے تُمہاری آنکھوں میں پانچ سو چھیتر میگا پکسلز کے دو کمیرے نصب کر دیے ہیں یہ کیمرے جو تصویریں کھینچ کر تُمہارے دماغ کو بھیجتے ہیں وہ اتنے وقت میں ان تصویروں میں موجود ایک کروڑ سات لاکھ رنگ اور دیگر چیزیں شناخت کر سکتا ہے جو ایک سیکنڈ سے بھی اتنا کم ہے کہ ہم اُسے ماپ نہیں سکتے۔

اس حادثے سے صرف یہی نہیں ہوا بلکہ اُس حادثے نےتُمہارے جسم میں بارہ ایسے پیچیدہ ترین نظام تشکیل دیے جن کی تمام جزئیات ہم ابھی تک نہیں جان پائے ہیں اور حادثاتی طور پر یہ سب نظام مل کر کام کرتے ہیں تاکہ تُمہاری زندگی برقرار رہے۔ لیکن ہم تُمہاری بات بعد میں کریں گے پہلے ابتدائی حادثے کی طرف چلتے ہیں۔

اُس کی سوچتی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اُس کی خود سے جنگ جاری ہے۔ ہُوں ہاں کیے بغیر وہ میری طرف دیکھتی رہی۔

میں نے بات جاری رکھتے ہُوئے کہا، کیا سائنس معلُوم کر چکی کہ کائنات کی لمبائی چوڑائی کتنی ہے؟

وہ بولی یہ ممکن نہیں ہے۔

میں نے کہا میں جانتا ہوں کیوں کہ سائنس اب کہتی ہے کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، قرآن نے چودہ سو سال پہلے یہی کہا تھا نوٹ کر لو میں ریفرنس دوں گا۔

بائبل سمیت ساری دنیا پچھلی صدی تک سُورج کے ساکن ہونے کو یُونیورسل ٹرتھ کہتی تھی قرآن نے چودہ سو سال پہلے کہا تھا کہ سبھی ستارے سیارے اپنے لیے طے کردہ مداروں میں گھوم رہے ہیں۔

اب یہ بات کامن سینس کی بات ہے لیکن چودہ صدیوں پہلے کی دُنیا میں تصور کرو ایسا کون سوچ سکتا تھا۔

میں نے دیکھا وہ اپنے سوالات لکھ رہی ہے۔

میں نے کہا تُم مانتی ہو چودہ ارب سال پہلے ایک دھماکے کے ذریعے یہ کائنات بنی تھی، میں یہ پُوچھوں گا ہی نہیں کہ جس نے ڈھائی سو ارب سے زیادہ کہکشائیں تشکیل دیں, وہ دھماکہ ہُوا کِس چیز میں تھا، دھماکے پہلے کیا تھا، کیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور آخری دھماکہ تھا یا ایسے حادثے کہیں اور بھی ہُوئے, میں پُوچھ بھی لوں تو کیسے جواب دو گی سائنس تو ابھی یہ سب جانتی ہی نہیں.

میں تو اس حادثے کی خوبصورتی کی طرف تُمہیں متوجہ کرنا چاہتا ہُوں دیکھو خُود بخود ہونے والے اس حادثے کے نتیجے میں کھربوں سورج بنے۔ ہر سورج کے ساتھ بہت سی زمینیں بنی پھر حادثے ہی کی بنیاد پر ہماری بھی ایک زمین بنی اور حادثاتی طور پر ہی سورج کے گرد اور اپنے محور کے گرد گھومنے لگی اور گھومی بھی 23.5 ڈگری جھکاؤ پر جو اگر آدھا ڈگری بھی کم یا زیادہ ہوتا تو زمین پر زندگی نہ ہوتی۔

لیکن مان لیا ہو گیا اتفاق۔ پھر ایک اور اتفاق یہ بھی ہوا کہ یہ زمین اپنے محور کے گرد چارسوساٹھ میٹر پر سیکنڈ کی رفتار سے اور سورج کے گردایک لاکھ دس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومنے لگی۔

اگر ان دونوں سپیڈز میں چند کلومیٹر فی گھنٹہ کا بھی فرق ہوتا تو زمین پر نہ کوئی درخت اُگ سکتا نہ کشش ثقل موجودہ تناسُب میں ہوتی۔ انسانی اور نباتاتی زندگی کو مُمکن بنانے کے لیے زمین کے گھومنے کی رفتار بالکُل یہی ہونی چاہیے تھی جو ہے۔

کیا تُم ان اتفاقات در اتفاقات پر حیران نہیں ہو؟

وہ بالکل خاموش تھی۔ میں نے بات جاری رکھتے ہُوئے کہا کیا تُم جانتی ہو اگر زمین کے جھکاؤ کا زاویہ آدھا ڈگری بھی کم یا زیادہ ہوتا تو زمین پر موسم نہ بدلتا یعنی زندگی نہ ہوتی۔ کیا تُم اندازہ کر سکتی ہو کہ زندگی جسے تُم ایک نعمت مان چکی ہو کی تشکیل اور حفاظت کے لیے بقول تُمہارے اس خودکار حادثے نے کتنے پاپڑ بیلے ہیں۔

میں نے اُس کی آنکھوں میں نمی دیکھی تو کہا یہ پانی جو تُمہاری آنکھوں سے چھلکنے کو ہے اس پر بھی بات کریں گے کہ ان آنسوؤں کے نظام کو اس حادثے نے زندگی کی کس مدد کے لیے تُمہارے جسم میں تشکیل دیا لیکن پہلے اپنے فون میں کیلکولیٹر نکالو تاکہ میں تُمہیں دکھا سکُوں کہ قرآن نے زمین پر پانی اور خُشکی کا وہ تناسُب کتنا ایگزیکٹ بتایا ہے جو سائنس نے آج معلوم کیا۔

اُس نے ایک لفظ بولے بغیر فون میں کیلکولیٹر کی ایپ کھولی اور میری طرف دیکھنے لگی۔

میں اُس کے چہرے کے تأثرات سے جان سکتا تھا کہ وہ اللہ پر ایمان لے آئی ہے لیکن مجھے کوئی جلدی نہیں تھی۔ میرا مقصد مسلمانوں کی تعداد میں ایک اور مسلمان کا اضافہ کبھی رہا ہی نہیں۔ میں تو یہ جانتا ہُوں کہ نبوت میرے محمدﷺ پر ختم ہو چکی وہ اللہ کا پیغام مکمل کر کے عمل میں ڈھال کر تو دکھا گئے لیکن اپنی عصری اور انسانی مجبوریوں کے باعث دُنیا کے ہر خطے اور ہر دور کے افراد تک خود چل کر وہ پیغام نہیں لے جا سکے۔

میرے محمدﷺ کو یقین تھا کہ ہر دور وہ سابقون ضرور ڈھونڈ لے گا جو ان کے نمائندے بن کر انکا پیغام آگے مزید آگے پُہنچائیں گے۔

میں نے جتنے مرد و خواتین کو بھی اسلام میں داخل کیا یہی سوچ کر کیا کہ یہ لوگ نبیﷺ کی وہ نمائندگی کریں گے جو پیدائشی مسلمان فرقوں کی لڑائی میں الجھ کر بھلا بیٹھے ہیں۔ 

ایمان کنوِکشن کے ساتھ نہ ہو تو ابوبکرؓ، عُمرؓ، عُثمانؓ علیؓ اور عائشہؓ اور فاطمہؓ جیسے مسلمان پیدا نہ ہوں گے، وہ نہ ہوئے تو ختم نبوّت کی عملی دلیل کون بنے گا۔

۔۔۔۔

وہ بولی, میں مانتی ہوں تم یہ نے یہ ثابت کر دیا کہ کائنات کا بننا حادثہ نہیں تھا, اسے واقعی کسی خدا نے ہی بنایا تھا۔

سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ثابت کرو گے کہ قرآن تمہارے بیان کردہ اللہ نے ہی بقول تمہارے مکہ میں پیدا ہوئے ایک شخص پر نازل کیا تھا۔

میں نے کہا بس یہی ثابت کرنے میں دیر لگتی ہے جو تم نے مان لیا۔

اس حقیقت کو کہ قرآن اللہ کا کلام ہے میں ایک منٹ میں ایک معمولی مکھی سے ثابت کر دونگا۔

وہ زور سے ہنس پڑی اور بولی ہاں پہلے دن تم مجھے بالکل پاگل لگے تھے۔ شکل سے بھی لگتے ہو لیکن اب مجھے شک نہیں کہ تم ایسا نہیں کر سکتے, لیکن میں سننا چاہتی ہوں۔

میں نے پوچھا یہ بتاؤ تمہاری سائنس نے کب ثابت جانا ہے کہ شہد بنانے کا سامان مادہ مکھی جمع کر کے لاتی ہے نر مکھی نہیں۔

وہ اپنے فون پر گوگل سے یہ معلومات تلاش کرنے لگی اور تھوڑی دیر بعد اس سلسلے میں ایک تحقیق میرے سامنے رکھ دی جو اس کی تفصیل بتاتی تھی۔

میں نے فون اس سے لیے بغیر کہا مجھے اس میں دلچسپی نہیں۔ تم بس یہ بتاؤ کہ جو سائنٹیفک ریسرچ نے اب جانا ہے قرآن نے وہ چودہ سو سال پہلے کیسے کہہ دیا کہ اللہ نے شہد کی مادہ مکھی کو شہد بنانے کا طریقہ وحی کیا۔

اب میرے سوال کا جواب دو چودہ صدیوں پہلے یہ حقیقت کون جان سکتا تھا کہ شہد نر نہیں مادہ مکھی بناتی ہے۔

وہ پی ایچ ڈی سٹوڈنٹ تھی، دلیل ہی ریسرچ سٹوڈنٹ کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے۔

بغیر ہچکچائے بولی۔۔ گاڈ۔

پھر بولی دکھاؤ مادہ مکھی کہاں لکھا ہے قرآن میں۔

میں نے اسے فَاسْلُكِي کا لفظ دکھایا وہ اس لفظ کی گوگل سے تشریح دیکھتی رہی پھر بولی ہاں یہی مطلب ہے۔

مغرب کا وقت تھا میں نے کہا چلو مسجد چلتے ہیں۔ وہ بولی ہاں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر۔ میں نے کال کر کے ان پروفیسر صاحب کو بھی مسجد آنے کے لیے کہہ دیا جنہوں نے مجھے اس لڑکی سے ملنے کا کہا تھا۔

No comments:

Post a Comment