ریڈیالوجسٹ, گائنا کالوجسٹ اور MBBS سے دوران حمل ہوئے الٹرا ساؤنڈ میں فرق
گزشتہ برس میری زندگی میں تین غیر معمولی واقعات رونما ہوئے۔ جنہوں نے میرے لیے الٹراساؤنڈ کی مروجہ پریکٹس بدلی۔ میرے اپنے بیٹے کی دوران پیدائش لیڈی ولنگڈن لاہور میں وفات، میرے سکول میں سے ایک کولیگ کی بھتیجی ہائیڈرو سیفلس اور سپائنا بیفیڈا (سر میں پانی اور کمر میں پھوڑا) کے ساتھ پیدائش اور تین ماہ بعد وفات۔ میرے ایک قریبی دوست کی اہلیہ کے ہاں حمل کے 24 ویں ہفتے میں نیورل ٹیوب ڈیفکٹ کی بروقت تشخیص۔
عنایہ میری پہلی اولاد میری بیٹی پورے پانچ سال کی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ بچے کی امید لگائی۔ عنایہ کی طرح ہم ریگولر گائنا کالوجسٹ سے ملتے رہے۔ وہ کنسلٹنٹ گائنا کالوجسٹ نہیں تھی۔ مگر تھی گائناکالوجسٹ۔ ہمیں بتایا جاتا رہا سب کچھ پرفیکٹ ہے۔ میں تفصیل سے ایک پوسٹ میں لکھ چکا ہوں کیا ہوا تھا۔ پیدائش والے دن گوجرانولہ سے ایک ریڈیالوجسٹ سے اسکین کروایا تو معلوم ہوا بچہ IUGR ہے۔ یعنی ماں کی کوکھ میں گروتھ رک جاتی۔ اور وزن 9 سو گرام کے قریب ہے۔ حافظ آباد پورے شہر میں ایک بھی ریڈیالوجسٹ نہیں ہے۔ ہمیں نہیں معلوم IUGR کب شروع ہوا۔ گمان ہے ساتویں ماہ سے شروع ہوا۔ اللہ کو یہی منظور تھا دوران پیدائش بچہ وفات پا گیا۔
کولیگ کی بھابھی پورے نو ماہ ایک بہترین گائنی سے ریگولر اسکین کرواتی رہی۔ شیخوپورہ کے ایک ہسپتال میں بچی پیدا ہوئی تو سر پانی سے بھرا ہوا اور کمر میں غبارہ نما ابھار۔ تین ماہ ہسپتالوں میں آپریشن کی تاریخ لیتے ہی بچی خالق حقیقی سے جا ملی۔
میرے دوست نے بتایا کہ شادی کے بعد پہلا بچہ ہے 24 ہفتوں کا حمل ہے۔ ریگولر ڈاکٹر سے مل رہے ہیں۔ تم دو بار والد بن چکے ہو کچھ گائیڈ کر دو۔ میں نے کہا صبح فلاں ریڈیالوجسٹ سے اہلیہ کا سکین کروا کر مجھے رپورٹ بھیجنا۔ وہی رپورٹ میری اِس پوسٹ کے ساتھ لگی ہے۔ ڈاکٹرز سے مشورہ کر کے دوست کو حمل ٹرمینیشن کا بروقت مشورہ دیا جو اسنے مان لیا۔ اس نے خود بھی علماء سے فتویٰ لیا تھا۔
میں نہیں کہتا ان تین واقعات کو پورے ملک کی گائنی پر اپلائی کر دیں۔ میرا سوال صرف اتنا ہے کہ آپ کے بچے کی وہ معذوری جو اسکین سے پتا چل جاتی آپ کو بتائی گئی تھی؟ میں اکثر اس سوال سے متعلقہ ہر فیملی سے یہ سوال کرتا ہوں۔ اکثریت میں جواب ناں میں ہوتا ہے۔
پھر ڈاکٹرز سے پوچھا کہ آپ بتاتے کیوں نہیں۔ کئیوں نے کہا کہ وہ لوگ دائیوں یا لیڈی ہیلتھ ورکرز سے اسکین کرواتے ہیں اور ان کی جانے بلا یہ مسائل کیا ہیں۔ اور کئی حاملہ خواتین بتائے جانے والے ٹیسٹ ہی نہیں کرواتیں، مالی مشکلات اور اس چیزکا شعور نہ ہونا اسکی وجوہات ہیں۔ اناملی اسکین سے صاف انکار کر دیتی ہیں۔ کہ وہ بڑے شہر سے کروانے جانا پڑے گا۔ اور کئی بار ہم خود فیملی کو ٹینشن نہیں دینا چاہ رہے ہوتے۔ ہم دیکھ لیتے کہ یہ لوگ حمل ختم نہیں کریں گے بس باقی ماہ روتے ہوئے گزاریں گے۔ تو نہیں بتاتے۔ کئی ڈاکٹر بتا بھی دیتے ہیں۔
کوشش کریں کنسلٹنٹ گائنا کالوجسٹ سے ملا کریں۔ عموماً لوگ MBBS ڈاکٹر سے مل رہے ہوتے۔ وہ گائنا کالوجسٹ بھی نہیں ہوتیں۔ انکو ان باتوں کا کیا پتا ہونا؟
ہر چیز کا ایک پروٹوکول ہے۔ ڈاکٹری کی ہر فیلڈ کے اپنے پروٹوکول ہیں۔ میں ان میں دخل نہیں دیتا کہ میری وہ فیلڈ نہیں۔ میری یہ رائے ہے جو آپ سے مختلف ہو سکتی کہ والدین کو بچے کے متعلق بتا دینا چاہیے۔ وہ حمل بھی پورا کرے گا یا نہیں۔ یا پیدا ہو کر اسکی زندگی کیا ہوگی۔
میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ پر عموماً بچے کی تمام حالت تفصیل سے بشمول اسکی اگر کوئی معذوری ہو لفظوں میں لکھ دی جاتی ہے۔ پھر والدین کا فیصلہ ہوتا کہ وہ کیا کرتے۔ نہ کہ وہ ایک ایک دن خوشی کے انتظار میں گزاریں ۔بچے کے لیے خوشیوں سے شاپنگ کریں۔ خواب بنیں۔ پلان کریں ہم عقیقہ ایسے کریں گے، بیوی خاوند سے کہے آپ بیٹے کے والد بن رہے۔ ہماری فیملی اب مکمل ہورہی ہے۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں وغیرہ اور سی سیکشن پر حسب استطاعت پیسے لگائیں۔ ماں جان داؤ پر لگا کر پورے نو ماہ بعد بچہ پیدا کرے۔
اور پھر انکے ہاتھ کیا آئے؟
یہ بہت پیچیدہ اور علمی موضوع ہے۔ آج بس اتنا کہوں گا۔ اسکین افورڈ کر سکیں تو دوران حمل دو تین بار ہی سہی ریڈیالوجسٹ سے کروا لیں کریں۔ عام ڈاکٹر کے کلینک سے ہوا اسکین ریڈیالوجسٹ کے اسکین کے مقابلے میں بہت کم معلومات دیتا ہے۔
دوران حمل الٹرا ساؤنڈ سے معلوم ہونے والی بیماریاں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ یعنی بہت ہی کم رونما ہوتی ہیں۔ پریشان نہیں ہو جانا۔
پھر انکی شدت کے کئی لیول ہیں۔ کئی اقسام ہیں۔ ہر حمل ٹرمینیشن کی طرف نہیں جاتا۔ شدید مسائل کے ساتھ ہی ڈاکٹر اس طرف آتے۔ مگر والدین کو علم تو ہو کہ وہ ایک سپیشل بچے کو جنم دینے جا رہے۔ کسی ایسی جگہ سے ڈیلیوری کروا سکیں جہاں سیکشن کی صورت میں انستھیزیا ب(ے حوشی والا) اور پیڈز (بچوں کا سپیشلسٹ) ڈاکٹر گائنا کالوجسٹ سرجن کے ساتھ موجود ہوں۔ ہسپتال میں بچوں کی اچھی نرسری ہو۔ نہ کہ معمولی معذوری Mild level والا بچہ کسی دائی لیڈی ہیلتھ ورکر یا سہولیات سے خالی ایک سرٹیفائیڈ گائنی کے کلینک میں بچہ پیدائش کے بعد سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے Severe to profound معذوری کی طرف چلا جائے۔
بچہ پیدا کرنے کا آپریشن 15 ہزار سے 3 لاکھ تک ہوتا ہے۔ اس سے اوپر ہوتا ہوگا شاید 3 لاکھ تک تو جہاں سے ہوتا میں وہ ہسپتال دیکھے ہوئے۔
بچے کی صورت حال آپکے سامنے ہو تو فیصلہ کرنا قدرے آسان ہوجاتا کہ ڈیلیوری کے لیے کہاں جانا ہے۔ نارمل کا رسک لینا یا نہیں۔ کئی ایسے شہر ہیں جہاں بچوں کی نرسری ہی نہیں ہوتی۔ اور بچے کو دوسرے شہر یا ایک ہسپتال سے نرسری والے ہسپتال ہی لیجاتے بات کہیں سے کہیں جا چکی ہوتی۔
ڈرنا نہیں ہے۔ بس احتیاط کرنی ہے۔ اور حاملہ لڑکی کو دوران حمل اور پھر پیدائش کے وقت بیسٹ پاسیبل جگہ پر لے کر جانا ہے۔
خطیب احمد
No comments:
Post a Comment