R
امریکہ کے مشہور یلو سٹون نیشنل پارک میں ماحولیاتی سائنس سے وابستہ ٹیم نے ایک فیصلہ کیا کہ یہاں 14 بھیڑئے چھوڑ دیتے ہیں. اس پارک میں ہرنوں کی بہتات تھی. ماہرین نے سوچا چودہ بھیڑئے ہرنوں کی اس بڑی آبادی کو ختم نہیں کر سکتے لیکن اس بڑے پارک میں کچھ حصے میں سبزہ ان بھیڑیوں کے ڈر سے بہتر ہو جائے گا. یہ سال 1995 کی بات ہے.
چھ سال بعد اس پارک کی سٹڈی نے لیکن حیرت کے نئے جہاں کھول دئے. درختوں اور سبزے میں ہوش ربا اضافہ ہوا. اس پارک میں پہلے اود بلاو یعنی beaver نہیں تھے. یہ ندی نالوں میں ڈیم بناتے ہیں. پانی کے کنارے درخت ہی نہ تھے. جو پودا سر نکالتا ہرن کھا جاتے تھے. اب لیکن بھیڑئے ندی کنارے ہرنوں کی تاک میں رہتے تھے.
اود بلاو آئے تو ڈیم بنے. پانی کھڑا ہوا تو چھچوندر بطخیں اور مچھلیاں آگئی. بھیڑیوں نے گیدڑوں کو بھی کم کر دیا تھا. اب پارک میں حرگوش اور چوہے بھی بڑھ گئے. ان کے پیچھے عقاب لومڑیاں بھی آگئیں. بیریاں جب ہری بھری ہوئیں مچھلیاں بہتات میں دستیاب ہوئیں تو بھورے بھالو بھی آگئے. ٹیڑھی میڑھی ندیوں کے کنارے جب جنگل آباد ہوا تو زمین کا کٹاو ختم ہوگیا. دریا اور ندیاں سیدھی بہنے لگی.
بیس سال بعد یلو سٹون نیشنل پارک کا نظارہ ہی بدل چکا تھا. اس کا شکریہ ان 14 بھیڑیوں کو جاتا ہے جن کی آمد پر کبھی اس پارک کے ہرن بہت روئے ہوں گے. فطرت کا نظام بہت منفرد ہے. ہم جب فطرت پر بے پروا آنکھیں بند کر کے اسے تباہ کرنے چل پڑتے ہیں تو قدرت کچھ بھیڑئے پھر آزاد کر دیتی ہے. بقا کی اس جنگ میں فطرت کو واپس توازن مل جاتا ہے.
ریاض علی خٹک
No comments:
Post a Comment