سکتہ کا مرض اور فصد سے اس کا علاج
بغداد کے ایک وزیر جس کا نام علی بن بلبل تھا اس کے ایک قریبی عزیز کو خونی سکتہ کا مرض ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی سانس رک گئ تھی ۔ (
سب لوگوں نے اسے مردہ سمجھ لیا اور اس کی تجھیز وتکفین کا کام بھی مکمل کر لیا۔ حکیم ابو المنصور صاعد بھی جنازے میں شرکت کے لئے پہنچ گئے ۔ ان کی نظر جیسے ہی میت پر پڑی تو فورا مریض کو چیک اپ کرنے بیٹھ گئے کچھ سمجھ میں انے کے بعد وزیر سے کہنے لگے ، حضور والہ یہ شخص مرا نہیں ہے ابھی زندہ ہے ۔ اسے خونی سکتہ لاحق ہو گیا ہے اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اس کا علاج کروں شائد یہ ہوش میں آجائے۔ ویسے بھی اپ کے نزدیک یہ مرا ہوا ہے میرے علاج سے اسے مزید کسی نقصان کا اندیشہ تو نہیں ہو سکتا ۔ شائد میری ترکیب علاج اسکے آخری وقت میں کچھ کام آجائے۔
وزیر نے کہا ،
ٹھیک ہے جب تمہیں یقین ہے تو تم بھی اپنا گر آزما لو ۔ ہم انتظار کرتے ہیں ۔
ابو منصور نے پہلے وہاں پر موجود تمام لوگوں کو ہٹایا ۔
اور اپنے اسسٹنٹ سے فصد کروانے کے ایکوپمنٹس منگوائے ۔ پھر اس نے مریض کے بازو کس کر پٹی سے باندھ دئیے اور ہاتھوں کی رگوں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جیسے ہی ہاتھوں کی بالائی حصے کی رگیں نمایاں ہوئی تو اس نے مخصوص طریقے سے باسلیق ، قیفال ، اکحل پر نشتر لگا کر فصد کھول دی جس سے استفراغ کلی ہوگیا یعنی رگوں میں جمع شدہ تمام خون باہر نکل آیا ۔ اور روٹس کلئیر ہو گئے اسی طرح اس نے دوسرے ہاتھ کا بھی فصد کھول دیا اس دفعہ مریض نے آہستہ آہستہ انکھین کھول دی اور سانس بحال ہونے لگی اس کے بعد مریض اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ ۔
سب لوگوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ طبیب کی ہوشیاری اور حذاقت سے ایک قیمتی جان بچ گئ ، اس کے بعد طبیب ابو منصور صاعد نے مریض کا مناسب غذاووں اور دواووں سے علاج کیا جس سے مریض کچھ ہی دنوں می مکمل صحت یاب ہوکر اپنے کام سر انجام دینے لگا ۔
( مورال آف دی سٹوری یہ ہے کہ طبیب کو صرف ادویہ پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ علاج بالتدبیر کی طرف بھی دھیان دینے اور اس میں مہارت کاملہ حاصل کرنے لے لئے محنت کرنا ہوگی )
No comments:
Post a Comment