#ScamAlert
مضاربت اور ٹائنز کافتنہ۔۔۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان میں جیسے روپے پیسے کا سیلاب آنے والا ہو ہر پاکستانی ملینر بننے والا ہے اور یہ ملک دنیا کے نقشے پر امیر ترین ملک بن جائے گا۔۔۔
پاکستانی نوجوانوں کی فوج در فوج بھاگی جا رہی تھی ایک طوفان تھا جو بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔ پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نوکریاں ، کام کاج چھوڑ کر جوق در جوق ٹائنز کی طرف بھاگ رہی تھی۔۔۔
ٹائنز جیسی دیگر کچھ ملٹی لیول مارکیٹنگ (MLM) کمپنیاں بھی سرگرم تھی یہ سب کمپنیاں مل کر پاکستان کے ہزاروں بلکہ لاکھوں نوجوانوں کو گمراہ کر رہی تھی۔۔۔
ٹائنز، ڈی ایکس این، جی ایم آئی، میٹ لائف، گرین ورلڈ، ڈائل چین، آئم گلوبل، انرجیٹک مارکیٹنگ،لیو انٹر پرائزز، الائنس گلوبل وغیرہ وغیرہ۔۔۔
یہ سب کمپنیاں مل جل کر بہت منظم طریقے سے پاکستانی نوجوانوں کو مستقبل کے سنہرے خواب دکھا کر خوب لوٹ رہی تھی۔۔۔
پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بڑے بڑے ایونٹس اور پروگرمات ہورے تھے جس میں سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں نوجوان شرکت کرتے اور ان سب کو مستقبل کے ایسے حسین و سنہرے خواب دکھائے جاتے کہ ہر نوجوان ہوا کے دوش پر اڑنے لگ جاتا۔۔۔
یہ کمپنیاں اپنی مارکیٹنگ کے لئے کالج، یونیورسٹیز، مدارس، گاؤں، دیہات، شہروں میں ہر نوجوان تک اپنا پیغام بہت منظم طریقے سے پہنچا رہی تھی، ہر شہر کے چوک چوراہے، سٹیشن، اڈوں پر اشتہارات کی بھرمار ہوتی تھی، اشتہارات میں نامی گرامی سیاسی لوگوں کے نام، فوج اور دیگر اداروں کے سربراہان کے نام تک مینشن ہوتے تھے کہ یہ سب لوگ بھی اس سسٹم کا حصہ ہیں۔۔۔
جونوجوان ایک بار ان کمپنیز کا پروگرام اور ایونٹس جوائن کر لیتا توسمجھو وہ تو گیا کام سے۔۔۔
سٹیج پر جس انداز سے ڈاکومینٹری اور پرزنٹیشن دی جاتی تھی کہ بندہ دم بخود ہوجاتا مزے کی بات یہ تھی کہ ہر کمپنی کی پرزنٹیشن میں تقریباً یہی دکھایا جاتا کہ اس کمپنی کا مالک پہلے انتہائی غریب تھا ، عموماً کمپنیز کے مالک تھائی لینڈ، ملائشیاء، سنگاپور، جاپان، کوریا، تائیوان، انڈونیشیاء کے دکھائے جاتے،انتہائی پسماندہ سے گاؤں کے بیچوں بیج کمپنی کا مالک سائیکل پر جا رہا ہےمحنت مزدوری کر رہا ہے اس بندے کے ذہن میں ایک ملٹی مارکیٹنگ کا آئیڈیا آتا ہے اور اس پر کام شروع کر دیتا ہے اور پھر اگلے ہی چند سالوں میں اس بندے کا شمار دنیا کے امیر ترین بندوں میں ہوجاتا ہے جس پاس دنیا کے ہر ملک میں کمپنیاں، پلازے، بلڈنگز، فارم ہاؤسز، بیچز، لگزری گاڑیاں، پرائیویٹ طیارے موجود ہیں۔۔۔
یہ پرنزٹیشن دینے والےکمال کے موٹیویشنل، بلا کے چلاک، انتہائی زہین، باتوں کی ہیرپھیر سے واقف، اورسامعین کو اپنی باتوں کے سحر میں جکڑنے کے فن میں اپنی مثال آپ تھے۔۔۔
ہال میں موجود ہر ذی روح پر سکتہ طاری ہوجاتا تھا امیر بننے کے وہ گُر اور ٹپس بتائی جاتی تھی کہ نہ کبھی کسی نے سوچی نہ سنی نہ دیکھی۔۔۔ ہر بندہ خود کو ملینر اور اپنے علاقے کا امیر ترین بندہ سمجھنے لگ جاتا۔۔۔
صرف ایک سال اس کمپنی میں کام کرو آپ کے پاس ایسا عالیشان گھر اور وہ گاڑی ہوگی جو آپ کے رشتہ داروں میں سے کسی نے نہیں دیکھی ہوگی۔۔۔ دنیا کے وہ ملک جہاں کے صرف خواب دیکھے وہاں جانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا۔۔۔ پیسہ اتنا کہ بنک بھر جائیں۔۔۔مال و دولت کے انبار لگ جائیں۔۔۔ قارون کے خزانے قدموں ک خاک ہوں گے۔۔۔
یہی نوجوان اس دو ڈھائی گھنٹے کے ایونٹ کے بعد خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرتے۔۔۔ اسی وقت تہیہ کر لیتے کہ اب جینا مرنا اسی کمپنی کے لئے ہے۔۔۔ بس اب ہمیں ملینر بلکہ بلینر بننے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔۔۔ دنیا ہمارے قدموں کے نیچے ہوگی۔۔۔ اسی دن جا کر ایک عدد تھری پیس سوٹ خریدا، ایک عدد بلیک ڈائری خریدی اور اسی کمپنی کا طوق گلے میں ڈال کر دن رات ایک کر کے در در پھر کر مارکیٹنگ کرنا شروع ہوجاتے۔۔۔
کتنےہی نوجوانوں نے ان ایونٹس کے بعد لگی لگائی نوکریاں اور کام چھوڑ دئے۔۔۔ اپنے گھر والوں کو قائل کر کے جمع پونجیاں تک لٹا دی۔۔۔ مال مویشی، زمینیں تک اس چکر میں بیچ ڈالی۔۔۔ ماں بہن بیوی کے زیور بیچے دئے۔۔۔
ایک ایسا طوفان تھا کہ اس کو روکنا مشکل ہوگیا۔۔۔ کسی نوجوان کو سمجھاؤ تو آگے سے کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔۔۔ ہر نوجوان آگے سے ایسا لیکچر دیتا کہ بندہ خاموش ہوجاتا ایسا لگتا تھا جیسے ان کو حشیش، افیون یا کوئی سخت قسم کا نشہ دے دیاگیا ہے کہ عقل و سمجھ سلب ہوچکی۔۔۔
پھر کیا ہوتا کہ یہی نوجوان کمپنیز کی ٹریننگ کی مد میں فیسیں، پروڈکٹس کی خریداری، ایفلیٹنگ، لفٹ رائٹ چین کے چکر میں لاکھوں روپے لٹا دیتے۔۔۔ سٹار کا ایک گھن چکر کہ بس جس کے پاس جتنے سٹار ہوں گے وہ اتنا ہی کامیاب انسان ہے۔۔۔ تھری سٹار، فائیو سٹار، سیون سٹار اور ٹائیکون کے پیچھے بھاگنا شروع ہوجاتے، سیون سٹار کو جیسے بادشاہ جیسی حیثیت حاصل ہوتی اس کی سکسیس سٹوریز کو کمپنی میگزین اور پینا فلیکس پر چھاپا جاتا۔۔۔ ہر نوجوان ان ٹائیکون جیسا بننے کی حسرت کرتا کہ کاش ہم بھی ان جیسی جنت بنا لیں۔۔۔
سکرپٹڈ اور پلانٹڈ سٹوریز۔۔۔ پیڈ شدہ اور طے شدہ ریویوز۔۔۔ سوچی سمجھی شازش اور باقاعدہ متعین شدہ لوگ۔۔۔جھوٹی سکسیس سٹوریاں۔۔۔ منگھڑت واقعات۔۔۔ ان سب کو دیکھا دیکھی کتنے ہی نوجوان برباد ہوئے۔۔۔
کتنے ہی نوجوان گمراہ ہوئے۔۔۔ گاؤں دیہاتوں کے معصوم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسا کر لوٹا گیا۔۔۔کراچی، اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد، ملتان، سرگودھا، گوجرونوالہ، ایبٹ آباد، مانسہرہ، چکوال اور دیگر کئی شہر اس لپیٹ میں آئے۔۔۔ ہزاروں لوگ گواہ ہیں کہ کس طرح خاندانوں کے خاندان تباہ و برباد ہوئے۔۔۔
ــــــــــــــــــــ
اسی طرح مضاربت کے فتنے کا سیلاب آیا اور اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے گیا۔۔۔
مضاربت چونکہ خالصتاً مذہبی لبادے میں تھا تو پاکستانی عوام ان کے جھانسے میں جلدی آگئی۔۔۔ لمبی لمبی داڑھیاں، پگڑیاں، جبہ و دستار سے مزین لوگ جب اس فیلڈ میں آئے تو گویا امام کے پیچھے مقتدیوں کی لائنیں لگ گئی۔۔۔ مسجدوں کے منبرو محراب سے جب تجارت کے فضائل ومناقبت بیان کی جاتی تو یوں محسوس ہوتا جیسے دنیا کا سب سے افضل کام ہی تجارت ہے۔۔۔ عوام جیسے پاگل اور صم بکم ہوچکی تھی اور ان مذہبی پیشواؤں کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کی صدا بلند کر کے اپنی جمع پونجیاں دان کر رہی تھی۔۔۔
خواتین اپنے زیور بیچ کر اپنا حصہ ڈال رہی تھی۔۔۔ غریب لوگ مال مویشی بیچ کر شامل ہورہے تھے۔۔۔ کئی لوگوں نے چلتے کاروبار بیچ ڈالے۔۔۔ زرخیز زمینیں اور بنے بنائے مکان فروخت کر کے اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔۔۔
کیا ہی مناظر تھے کہ وہ لوگ جنہوں نے چند ہزار سے زیادہ کبھی دیکھے نہ تھےجن کے پاس ٹوٹی سائیکل بھی نہیں ہوتی تھی، چائے پینے کے پیسے تک نہ ہوتے۔۔۔
ایسے لوگوں کو زمانے نے دیکھا کہ دنیا کی مہنگی ترین امپورٹڈ گاڑیاں۔۔۔ لگرزی اپارٹمنٹس کوٹھیاں اور محلات نما گھر۔۔۔ ایک ٹائم کا کھانا کراچی میں تو دوسرے ٹائم کا کھانا دبئی میں۔۔۔ کبھی سنگاپور کبھی ملائشیاءتو کبھی لندن امریکہ کی سیریں ہورہی ہیں۔۔۔ ایسی لگزری اور شاندار زندگی جس کا صرف تصور کیا جاسکتا تھا۔۔۔وہ سب عیاشیاں اور سہولیات جن کے صرف خواب دیکھے جاسکتے تھے وہ سب مضاربتیوں کے نصیب میں ہی تھے۔۔۔ اس دور میں ہر بندہ دو دو تین تین شادیاں رچا رہا تھا۔۔۔ اور شادیاں بھی ایسی کہ حکمرانوں کی بھی ایسی نہ ہوں۔۔۔ مرغ مسلم، ہرن، اور نایاب ترین ر لوازمات کہ بس سوچتے ہی رہ جاؤ۔۔۔
جب سیلاب تھما تو پھر سمجھ آئی کہ سب کچھ لٹ چکا ہے۔۔۔ خاندانوں کے خاندان اس زد میں آکر اپنا سب کچھ گنوا چکے تھے۔۔۔ لوگ آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پاتال میں اتر چکے تھے۔۔۔ تب جا کر سمجھ آئی کہ ہم تو تباہ تو برباد ہوچکے ہیں۔۔۔ ماسٹر مائنڈ وں نے پہلے سے ہی پلاننگ کر رکھی تھی۔۔۔ دبئی ملائشیاء یورپ بھاگ گئے۔۔۔
جب مضاربت کا عروج تھا تو کوئی صاحبِ بصیر ت ان کے بارے میں بات کرتا توجیسے گردن پر چھری چلا دی ہو اس کو ایسے زلیل و رسوا کیا جاتا کہ دوبارہ مضاربت کے بارے میں بات کرنا سنگین جرم ہوتا۔۔۔ اس طوفان بدتمیزی کے گزرنے کے بعد سب ہاتھ ملتے رہ گئے۔۔۔ پچھتاوے نے جسموں سے خون تک نچوڑ ڈالا۔۔۔
کتنے ہی لوگ جیلوں میں چکیاں پیس رہے ہیں۔۔۔ کاروبار تباہ و برباد ہوگئے۔۔۔ طلاقیں اور لڑائیں ہوگئی۔۔۔
ــــــــــــــــــــ
پاکستان میں بھیڑ چال کا رواج ہے۔۔۔کسی چیز کی ہوا چل پڑے چار بندے کھڑے ہوجائیں توتماشہ مداری لگ جاتی ہے۔۔۔ لوگ جوق در جوق فوج در فوج اسی طرف چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔ کسی چیز کا ٹرینڈ چل پڑے تو پھر اس کاروان میں شامل لوگوں کو عین عروج کے وقت سمجھانا بلکل فضول ہوتا ہے۔۔۔ عقل و دماغ پر پردہ پڑچکا ہوتا ہے۔۔۔ ذہن اور سمجھ ماؤف ہوچکی ہوتی ہے۔۔۔ اس موضوع پر بات کرنا گویا اپنے لئے خود ہی مسائل کھڑے کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔۔۔ اس مشن کے لوگ اس بندے کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں جو خلاف معمول بات کر رہا ہو۔۔۔
وہ لوگ جو ان معاملات کو سمجھتے ہیں جن کی ریسرچ ہوتی ہے جن کو معلوم ہوتا ہے کہ حقائق کیا ہیں ایسے لوگ جب ان موضوعات پر آواز اٹھائیں کوئی بات کریں تو ان کو سختی سے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔۔۔ ان کی آواز نقارخانہ میں طوطی کی مثل ہوتی ہے۔۔۔ سمجھ تب آتی ہے جب پانی سر سے گزرجاتا ہے۔۔۔ عقل تب ٹھکانے آتی ہے جب طوفان کا تھم جاتا ہے۔۔۔ حقیقت تب آشکار ہوتی ہے جب سیلاب اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔۔۔
ہم نے ہر دور میں آواز اٹھائی۔۔۔ ناسمجھ اور معصوم نوجوانوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔ بیسیوں فراڈز اور سکیمز کی نشاندہی کی۔۔۔
الحمدللہ بہت سے نوجوان بروقت سمجھ گئے اور کچھ لوگ باوجود سمجھانے کے ان فراڈیوں کے جال میں پھنس کر اپنا سب کچھ برباد کر گئے۔۔۔
ــــــــــــــــــــ
یاد رکھیں۔۔۔
یہ ڈیجیٹل دور چل رہا ہے۔۔۔ ٹیکنالوجی اپنے عروج پر ہے۔۔۔دنیا تیزی سے ڈیجیٹیلائز ہورہی ہے۔۔۔
جس چیز کا دور ہے اس وقت کی ہواؤں کے رُخ دیکھنا اور سمجھنا بہت مشکل اور کٹھن ہوتا ہے۔۔۔
ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔۔۔ہر واعظ حقیقت میں مخلص اور خیر خواہ نہیں ہوتا۔۔۔ہر مخلص واقعتاً مخلص نہیں ہوتا۔۔۔
جیسے یہ دور ڈیجیٹل ہے تو اس دور کے لٹیرے اور فراڈیئے بھی ڈیجیٹل ہیں۔۔۔ وہ لوگ جانتے ہیں کہ عوام کے ذہنوں اور نفسیات میں کیا چل رہا ہے۔۔۔ لوگ کیا سوچ رہے ہیں اور کس سمت چل رہے ہیں۔۔۔ وہ نفسیات اور سوچ کو ٹارگٹ کر کے ہی وار کرتے ہیں۔۔۔ اپنی باتوں کے ہیر پھیر سے الجھا کر اپنے مقاصد حاصل کر لیتے ہیں۔۔۔ ان کو معلوم ہے کہ لوہا کہاں گرم ہے اور چوٹ کہاں لگانی ہے۔۔۔ ان کو دکھتی رگوں کا بخوبی علم ہے ۔۔۔
ــــــــــــــــــــ
خدارا۔۔۔
کچھ بھی فیصلہ کرنے سے قبل ایک بار سنجیدگی سے سوچ لیا کریں۔۔۔ کوئی بھی کام کرنے سے قبل اس فیلڈ کے ماہرین سے مشورہ ضرور کریں۔۔۔
جس لائن میں جانا چاہتے ہیں اس لائن کے وہ لوگ جو اس میں کامیاب ہوئے اور منزل پر موجود ہیں ان سے معلومات ضرور لیں ان سے پوچھ لیں ایک بار مشورہ ضرور کریں۔۔۔
کچھ بھی کرنے سے قبل اپنے آپ کا اور اپنے آس پاس کا جائزہ لیں اپنے حالات کا موازنہ کریں اپنے آپ کا جائزہ لیں اور خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔۔۔
اللہ رب العزت ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔ اللہ رب العزت خیر و عافیت والا معاملہ فرمائے۔۔۔ آمین
آپ کا خیر خواہ۔ حامد حسن
Hamid Hassan
No comments:
Post a Comment