میرا کہنا بس اتنا ہے کہ بچے کو دور سے چیخ پکار کر کے آوازیں دے کر، جلدی جلدی کی رٹ لگا کر اٹھانے کے بجائے محبت سے جگائیے کہ وہ اپنے دن کا آغاز کرنے جا رہا ہے۔ اسی طرح دن بھر کی خجل خواری کے بعد بچے اپنے دن کا اختتام کرنے لگے ہیں تو کیا جادو کی جپھی اور بوسہ نہیں ملنا چاہئے؟ کیا رات کی دعائیں پڑھ کر انہیں نندیا پور نہیں بھیجنا چاہیے؟ ایک بچہ ہو یا چار، یہ چیزیں تو ضروری ہیں۔ الگ الگ دعا کے بجائے ایک ساتھ ہی سب کے پاس دعا پڑھ لیں، الگ الگ ہگ مشکل ہے تو گروپ ہگ کا کوئی سلسلہ گھر میں شروع کریں۔ لمس کی اہمیت سے انکاری تو نہ ہوں۔۔
آپ کا کہنا ہے کہ زیادہ بچے ہوں تو آدھا گھنٹہ تو انہیں جگانے میں ہی لگ جائے۔ پاس جا کے آہستہ سے پکارنے، ماتھے پر بوسہ لینے اور بالوں میں انگلیاں پھیرتے وقت صبح کی دعا ساتھ ساتھ پڑھنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ یوں بھی جگا کر دعا تو پڑھتے ہی ہوں گے؟ باقی رہ گیا ماتھا چومنا تو وہ شاید دس سیکنڈ لیتا ہو۔
کچھ اور باتیں بھی میرے ذہن میں آتی رہی۔
ایک تو یہ کہ آیا واقعی ہر چیز میں ٹرین چھوٹ رہی ہے یا یہ ہر وقت خود بھی بے چین رہنا اور باقیوں کو بھی رکھنا ہمارے مزاج کا حصہ بن چکا ہے؟ ہم لمحہ موجود میں رہتے ہی نہیں، نہ خود اور نہ اب بچوں کو اس کی عادت دے رہے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ کیا کاموں کی لسٹ تھوڑی مختصر کی جا سکتی ہے؟
منیملزم پر میں کئی بار بات کر چکی۔ کپڑے جوتے، ڈیکوریشن پیس، کھانے پکانے یہ سب ہی ذرا حد حساب کا ہو تو یقیناً وقت اور توانائی بچ پائے۔
آخری بات یہ کہ بچوں کو جگانا سلانا صرف ماؤں کا ہی کام نہیں۔ گو کہ پھر اپنی بات دہراؤں گی کہ بوسہ لینے میں کتنا وقت لگ جاتا ہے کہ ہم سے ممکن نہیں ہو پاتا لیکن بہرحال والد حضرات بھی بچوں کی زندگیوں میں موجود رہیں۔ بچے کا باپ سے تعلق بس پیسے کی لین دین تک نہ رہے تو بہتر ہے۔کچھ ابا لوگوں کے کامنٹس پچھلی پوسٹ پر آئے کہ ہم یونہی جگاتے ہیں یا جگائیں گے، پڑھ کر دل خوش ہو گیا۔ پیرنٹ ہُڈ کے سفر میں اماں ابا دونوں ہی ہیں، اس لئے اس ذمہ داری کا احساس دونوں کو ہونا چاہئے۔
Shahzad shafiq hijama
03317863313
0321 2773576 0312 2001310
No comments:
Post a Comment